حوزہ نیوز ایجنسی مازندران کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ خواہران مازندران کے مدیر حجت الاسلام محمد جواد قائمی نے "شام کی تبدیلیاں اور ان میں پوشیدہ اسباق" کے عنوان سے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ:
اگرچہ تکفیری عناصر اور داعش کے خلاف پہلی جنگ میں عراق اور شام کی حکومت کی شکست کے بعد، شام میں استحکام کی طرف بڑھنے والا عمل، ایک طرف امریکہ، ترکی، اور ادلب میں باقی ماندہ داعش کے عناصر کی موجودگی اور دوسری طرف دمشق پر دن رات کے اسرائیلی حملوں کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا اور یہ ملک مسلسل نئے حادثات سے دوچار رہا، لیکن بہرحال بشار الاسد کی قیادت میں حزب بعث کی حکومت کا باب، جو صہیونیوں اور فلسطینی غاصبوں کے خلاف عربی فوج کی آخری دیوار تھی، اتوار کی آدھی رات کو بند ہو گیا۔ تحریر الشام اور جبهة النصرہ کے رہنما جولانی کے پیغام کے ساتھ، شام کے عبوری وزیر اعظم نے عبوری دور کی ذمہ داری سنبھال لی۔
شام، لبنان اور عراق کے درمیان زمینی سرحدوں اور ان ممالک میں تکفیری عناصر کی کارروائیوں کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، ان دو ممالک میں بھی سکیورٹی خطرات کی گھنٹی بجنی سنی جانی چاہیے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ شام، عراق اور لبنان میں خارجی طاقتوں کے حامی عناصر (ترکی، امریکہ، اور مغرب کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاسی و عسکری حکام) موجود ہیں۔
آخر میں، میں سیاست دانوں اور بین الاقوامی سیاسی تبدیلیوں کے ذمہ داروں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ سوویت یونین کی طاقت کے زوال کا عمل، جو سرد جنگ کے بعد مشرقی بلاک کا رہنما اور حامی تھا، لاطینی امریکہ، مشرقی یورپ، اور وسطی ایشیا کے دوست ممالک کی حمایت سے دستبرداری کے ساتھ شروع ہوا۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کے بارے میں امریکی مفکرین، خاص طور پر چامسکی نے خبردار کیا تھا کہ اسلامی بیداری کے بعد مصر، یمن، اور تیونس جیسے اسلامی ممالک میں اپنے حامیوں کو برقرار رکھنے میں ناکامی کے باعث امریکی طاقت زوال پذیر ہو سکتی ہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب نے امریکہ سے سکیورٹی خریدنے کے بجائے چین پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی سیکیورٹی خود پیدا کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔
میری درخواست ہے کہ ہم سب دوبارہ امریکہ پر بھروسہ کرنے والے افراد جیسے حسنی مبارک، مرسی، منصور ہادی، مصدق، اور برجام کے انجام پر غور کریں تاکہ یہ یقین حاصل کریں کہ اب یورپ بھی امریکہ اور نیٹو پر اعتماد کے ذریعہ سکیورٹی و امنیت قائم کرنے کا قائل نہیں رہا، بلکہ اپنی داخلی طاقت پر انحصار کو اپنی سیکیورٹی پالیسی کا حصہ بنا رہا ہے۔ اس امر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم عالمی سیاست میں ایک طاقتور کھلاڑی بنیں، نہ کہ تماشائی۔
ان شاءاللہ، قیادت کے زیر سایہ، یہ انقلاب ایرانی-اسلامی جدید تمدن کے حصول کی راہ پر گامزن رہے گا۔